Total Pageviews

Tuesday, August 11, 2015

۱۲ اگست- تاریخ کا اک سیاه باب نوم چومسکی نے کہا تھا کہ طاقت ور کے نزدیک ’’جرم‘‘ وہی ہے جو کسی اور شخص سے سرزد ہوا ہو ۔ وہ خود چاہے لاشوں کے ڈھیر لگا دے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر دے، اپنے ظلم سے دریائے دجلہ کا پانی خون آلود کردے، وہ جرم نہیں بلکہ اُس کا حق کہلاتا ہے۔ لیکن تاریخ نے ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کیا۔ سفاک ظالم وقتی طور پر بھلے ہی انسانیت کا لبادہ اوڑھ لیں، درباری اُن کی شان میں قصیدے گاتے پھریں، ہر طرف اُن کی واہ واہ ہوتی رہے، لیکن تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ وہ ظالم اور وحشی کے طور پر ہی جانے جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس محمد زبیر نیازی کے جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بارے میں لکھے گئے ایک تحریر سے لیا گیا ہے.ہم نے اسے یہاں اس لئے نقل کیا کہ جلیانوالہ باغ اور سانحہ بابڑہ میں کئی باتیں مشترک ہیں. سانحہ بابڑہ ظلم، جبر، وحشت اور بربریت پر مبنی یہ الم ناک سانحہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد ۱۲ اگست ۱۹۴۸ کو بابڑہ چارسدہ میں پیش آیا جب جناح اور قیوم کے فورسز نے ایک پر امن احتجاجی جلسہ میں چھہ سو سے زیادہ بے گناہ پشتونوں کا سفاکی سے قتلِ عام کیا. احتجاج کیوں کیا جارہا تھا؟ ۱ - جنگ ازادی کے جدوجہد میں انگریزسرکار نے جن لوگوں کو گرفتار کیا تھا وہ قیام پاکستان کے بعد بھی تا حال جیل میں تھے. ان کی رہائی چاہتے تھے ۲-تقسیم ہند کے بعد با چا خان اور خدائی خدمتگار تحریک کے راھنماووں کو حکومت نے نا حق گرفتار کیا. ۳- حکومت نے مرکزی دفاتر جو سردریاب کے مقام پر 1942ء میں قائم کیے گئے تھے نذر آتش کر دیے تھے۔ ۴- گورنر نے رسوائے زمانہ قانون پاس کیا تھا جس کے تحت حکومت مخالفین کو وجہ بتائے بغیر گرفتار کرتے، ان کے املاک نیلا م کرتے اور وہ عدالت میں اپیل بھی نہیں کر سکتے تھے. سانحہ بابڑہ کے اگلے روز قیوم خان کشمیری نے بڑے گھمنڈ کے ساتھ اپنے غلیظ عمل کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا ’" شکر کریں ھمارے فورسز کے پاس گولیاں ختم ہوئیں تھی ورنہ جلسہ گاہ میں ایک شخص بھی زندہ نہ رہتا" وہ ظالم جنہوں نے ۱۲ اگست کو بابڑہ کے مقام پر پشتون قوم کے محسنوں خدائی خدمتگاروں، بزرگوں بچوں اور عورتوں کا نا حق خون کیا، یہ سفاک ظلم نہ صرف اُن کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ثابت ہوا بلکہ ان تمام کرداروں کا انجام بھی بہت عبرت ناک هوا.ڈبل بیرل خان (قیوم خان ) ایسے بی شرمی میں مبتلا ہوئے کہ آج ان کے رشتہ دار بھی شرم سے اس شخص کا نام نہیں لیتے. ایسی بیماری جس کا پشتون معاشرے میں نام لینا بھی شرم ہو. دوسرے صاحب منصب کے ہوتے ہوئے بھی علاج معالجے اور ازادی سے محروم ایک کونے میں نظر بند اور پھر افسوس ناک موت، تیسرے کو گولی لگی اور اولاد دربدر، پشتو میں کہتے ہیں " د ازارہ چا بازار موندلی نہ دے" آج ان کے پاس ان مظالم پر سوائے شرمندگی، ندامت اور افسوس کے اور کچھ نہیں. قال الرسول ص:( " من لا یرحم الناس لا یرحمه الله)."صحیح البخاري. آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (اللہ تعالی اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہ کرے) بخاری.

No comments: